Thursday, August 9, 2018

ہمعصر فقیروں

السلام علیکم: فنا سے مراد وہ اعلٰی و ارفع مقام ہے جب سالک سلوک الی اللہ کی آخری منازل پر پہنچ کر اپنی نفسانیت اور خودی کو کھو دیتا ہے اور اس قدر پاک منزہ کہ ذاتِ حق میں واصل ہو جاتا ہے۔قلندر پاک رحمتہ اللہ علیہ اپنے ہمعصر فقیروں کے بارے میں یہی فرماتے”تمہارے بابا کو اللہ تعالٰی نے اپنی رحمت سے بلند کیا اور بابا اس مقام پر چلا گیا کہ باقی فقیروں کو اس کی خبر ہی نہیں۔آپ سرکار(رح)مغلوب الحالی سے نکل کر غالب الحالی کی طرف آئے اور درد انسانیت کا پیکر بن گئے۔فرمایا”دُعا کرو کہ بابا کی ہر سانس انسانیت کے کام آ جائے۔”یہ بھی یاد رکھیں کہ مقام فنا مغلوب الحالی جب کہ مقام بقا غالب الحالی ہے۔مقامِ فنا کو عروج اور مقام بقا کو نزول اور عبدیت کے ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے اور مقام عبدیت یا عبودیت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاصہ ہے۔ شہنشاہ دو جہاں سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل اور امت کے اولیاء کرام پہ ہر دم لاکھوں سلام

شرارتی بچے

باپ چار بچوں کے ساتھ ٹرین میں سوار ہوا، ایک سیٹ پرخاموشی سے بیٹھ گیا
اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا
بچے؟
بچے نہیں آفت کے پرکالے تھے۔
انہوں نے ٹرین چلتے ہی آسمان سر پر اٹھا لیا
کوئی اوپر کی سیٹوں پر چڑھ رہا ہے ،تو کسی نے مسافروں کا سامان چھیڑنا شروع کر دیا
کوئی چچا میاں کی ٹوپی اتار کر بھاگ رہا ہے تو کوئی زور زور سے چیخ کر آسمان سر پر اٹھا رہا ہے
مسافر سخت غصے میں ہیں
کیسا باپ ہے ؟
نہ انہیں منع کرتا ہے نہ کچھ کہتا ہے
کوئی اسے بے حس سمجھ رہا ہے تو کسی کے خیال میں وہ نہایت نکما ہے
بلآخر جب برداشت کی حد ہو گئی تو ایک صاحب غصے سے اٹھ کر باپ کے پاس پہنچے اور ڈھاڑ کر بولے
"آپ کے بچے ہیں یا مصیبت ؟ آخر آپ ان کو ڈانٹتے کیوں نہیں؟
باپ نے ان صاحب کی طرف دیکھا اس کی آنکھیں آنسووں سے لبریز تھیں اور بولا
'آج صبح ان کی ماں کا انتقال ہو گیا ہے میں ان کو وہیں لے کر جا رہا ہوں۔ مجھ میں ہمت نہیں کہ ان کو کچھ کہہ سکوں۔ آپ روک سکتے ہیں تو روک لیں ۔۔۔۔۔۔
سارے مسافرایک دم سناٹے میں آ گئے۔۔۔
ایک ہی لمحے میں منظر بالکل بدل چکا تھا
وہ شرارتی بچے سب کو پیارے لگنے لگے تھے
سب آبدیدہ تھے
سب انہیں پیار کر رہے تھے،
اپنے ساتھ چمٹا رہے تھے۔
زندگی میں ضروری نہیں کہ حقائق وہ ہی ہوں جو بس ہمیں نظر آرہے ہوں
بلکہ وہ بھی ہوسکتے ہیں جو ہمیں نظر نہ آ رہے ہو ں،
یاد رکھیئے
رائے بنانے میں وقت لگائیں،
بد گمانی سے پہلے خوش گمانی کو کچھ وقت دیں،
فیصلے سے پہلے ذرا ایک بار اور سوچ لیں،
بس ایک بار اور۔۔۔۔۔

Wednesday, August 8, 2018

نفس پر غلبہ

السلام علیکم : قلندر پاک رحمتہ اللہ علیہ نے مجھے لوگوں کے مجمع سے دور رہنے کا حکم دیا تھا کیونکہ لوگوں کا ہجوم آپ کو غفلت کی طرف لے جائے گا اور نفس اپنی شرارت کی چالیں چلتا رہے گا۔دنیا کی محتاجی کا خیال دل سے دور ہوگا تو خیالِ شیخ دل میں پختہ ہو گا اور نفس پر غلبہ پا سکے گا اور اپنی تلاش ممکن ہو گی۔لوگوں سے ملنا محض اللہ ہی کی خوشنودی کے لئیے ہو اور ہمارے معاملے میں درد انسانیت کا پیغام دینا یعنی سورہ الرحمن کا پیغام پہنچانا ہی مُرشد کے حکم کی اطاعت ہے نا کہ اپنی شہرت کے لئیے عقیدت مندوں کا ہجوم اکھٹا کرے۔خدمت خلق اس وقت انجام دی جا سکتی ہے جب انسان اپنے آپ کو خادم اور ساری خلقت کو مخدوم سمجھے۔یعنی ہر ملنے والے کو بلا امتیاز اپنے سے بہتر جانے۔یہ خدمت نہیں کہ کسی کو مخدوم سمجھے اور اپنے آپ کو مخدوم سے افضل سمجھے کیونکہ یہ واضع خسارہ اور دھوکہ ہے۔ قلندر پاک(رح) کی عطا کے حُسن پہ لاکھوں سلام

کاکی

کچھ مطلب وقت پر ہی کھلتے ہیں۔۔ چاہے جتنا مرضی انکو ڈی کوڈ کرنے کی کوشش کی جاۓ۔۔۔ مگر مرضی اسی کی چلتی ہے۔۔۔
کاکی 
کاکی صرف لفظ نہیں اور نا ہی یہ کسی خاص جنس کی طرف اشارہ ہے۔۔ یہ تو بس ایک احساس ہے۔۔۔ ایک ایسا پیار جو کسی بھی غرض سے پاک ہو۔۔ جہاں سوال ہو نا جواب ہو۔۔۔ بس وہ ہو۔۔۔ جسکی آغوش میں سر رکھ کر بھول جاۓ کہ کوئی غم بھی تھا۔۔وہ نگاہ جو پڑھ جاۓ تو بس اس کے سوا کچھ نا بچے۔۔وہ عشق ہے یا جنون۔۔۔ وہ دیوانگی ہے یا پاگل پن۔۔
بس وہ آ جاۓ تو اپنی دل لگی۔۔۔اپنی مرضی۔۔۔خواہشات کا نام و نشاں نا رہے۔۔ یہ بھی بھول جاۓ کہ وہ خود کون ہے۔۔ بس یاد رہے تو وہ۔۔۔۔۔
کاکی
ایک بار تاڑی گئ تو پار لگ گئ
کاکی ماں ہوتی ہے۔۔۔اور ماں ہی کاکی ہوتی ہے
اور یہ انکی وارث ہے جو تمام جگ کے لئے لاوارث ہوتے ہیں۔۔۔

آخرت میں حساب کتاب کیسے ہوگا

ایک شاگرد نے اپنے استاد سے پوچھا: استاد جی!
یہ آخرت میں حساب کتاب کیسے ہوگا؟

استاد نے ذرا سا توقف کیا، پھر اپنی جگہ سے اُٹھے
اور سارے شاگردوں میں کچھ پیسے بانٹے
انہوں نے پہلے لڑکے کو سو درہم،
دوسرے کو پچھتر،
تیسرے کو ساٹھ،
چوتھے کو پچاس،
پانچویں کو پچیس،
چھٹے کو دس،
ساتویں کو پانچ،
اور جس لڑکے نے سوال پوچھا تھا اسے فقط ایک درہم دیا۔

لڑکے بلاشبہ استاد کی اس حرکت پر دل گرفتہ اور ملول تھا، اسے  اپنی توہین محسوس ہو رہی تھی کہ استاد نے آخر اسے سب سے کمتر اور کم مستحق کیونکر جانا؟

استاد نے مسکراتے ہوئے سب کو دیکھتے ہوئے کہا: سب لڑکوں کو چھٹی، تم سب لوگ جا کر ان پیسوں کو پورا پورا خرچ کرو، اب ہماری ملاقات ہفتے والے دن بستی کے نانبائی کے تنور پر ہوگی۔

ہفتے والے دن سارے طالبعلم نانبائی کے تنور پر پہنچ گئے، جہاں استاد پہلے سے ہی موجود سب کا انتظار کر رہا تھا۔ سب لڑکوں کے آ جانے کے بعد استاد نے انہیں بتایا کہ تم میں ہر ایک اس تنور پر چڑھ کر مجھے اپنے اپنے پیسوں کو کہاں خرچ کیا ہے کا حساب دے گا۔

پہلے والے لڑکے، جسے ایک سو درہم ملے تھے، کو دہکتے تنور کی منڈیر پر چڑھا کر استاد نے  پوچھا؛ بتاؤ، میرے دیئے ہوئے سو دہم کیسے خرچ کیئے تھے۔

جلتے تنور سے نکلتے شعلوں کی تپش اور گرم منڈیر کی حدت سے پریشان لڑکا ایک پیر رکھتا اور دوسرا اٹھاتا، خرچ کیئے ہوئے پیسوں کو یاد کرتا اور بتاتا کہ: پانچ کا گڑ لیا تھا، دس کی چائے، بیس کے انگور، پاچ درہم کی روٹیاں۔۔۔۔ اور اسی طرح باقی کے خرچے۔ لڑکے کے پاؤں حدت سے جل رہے تھے تو باقی کا جسم تنور سے نکلتے شعلوں سے جھلس رہا تھا حتیٰ کہ اتنی سی دیر میں اسے پیاس بھی لگ گئی تھی اور الفاظ بھی لڑکھڑانا شروع۔ بمشکل حساب دیکر نیچے اترا۔

اس کے بعد دوسرا لڑکا، پھر تیسرا اور پھر اسی طرح باقی لڑکے،
حتی کہ اس لڑکے کی باری آن پہنچی جسے ایک درہم ملا تھا۔

استاد نے اسے بھی کہا کہ تم بھی تنور پر چھڑھ جاؤ اور اپنا حساب دو۔ لڑکا جلدی سے تنور پر چڑھا، بغیر کسی توقف کے بولا کہ میں نے ایک درہم کی گھر کیلئے دھنیا کی گڈی خریدی تھی، اور ساتھ ہی مسکراتا ہوا نیچے اتر کر استاد کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا، جبکہ باقی کے لڑکے ابھی تک نڈھال بیٹھے اپنے پیروں پر پانی ڈال کر ٹھنڈا کر رہے تھے۔

استاد نے سب لڑکوں کو متوجہ کر کے اس لڑکے کو خاص طور پر سناتے ہوئے کہا: بچو: یہ قیامت والے دن کے حساب کتاب کا ایک چھوٹا سا منظر نامہ تھا۔ ہر انسان سے، اس کو جس قدر عطا کیا گیا، کے برابر حساب ہوگا۔

لڑکے نے استاد کو محبت سے دیکھتے ہوئے کہا کہ: آپ نے جتنا کم مجھے دیا، اس پر مجھے رشک اور آپ کی عطا پر پیار آ رہا ہے۔ تاہم اللہ تبارک و تعالیٰ کی مثال تو بہت اعلٰی و ارفع ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اپنے حساب کی شدت سے بچائے اور ہمارے ساتھ معافی اور درگزر والا معاملہ فرمائے۔ آمین

وقت انجام

السلام علیکم : قلندر پاک رحمتہ اللہ علیہ نے مجھے لوگوں کے مجمع سے دور رہنے کا حکم دیا تھا کیونکہ لوگوں کا ہجوم آپ کو غفلت کی طرف لے جائے گا اور نفس اپنی شرارت کی چالیں چلتا رہے گا۔دنیا کی محتاجی کا خیال دل سے دور ہوگا تو خیالِ شیخ دل میں پختہ ہو گا اور نفس پر غلبہ پا سکے گا اور اپنی تلاش ممکن ہو گی۔لوگوں سے ملنا محض اللہ ہی کی خوشنودی کے لئیے ہو اور ہمارے معاملے میں درد انسانیت کا پیغام دینا یعنی سورہ الرحمن کا پیغام پہنچانا ہی مُرشد کے حکم کی اطاعت ہے نا کہ اپنی شہرت کے لئیے عقیدت مندوں کا ہجوم اکھٹا کرے۔خدمت خلق اس وقت انجام دی جا سکتی ہے جب انسان اپنے آپ کو خادم اور ساری خلقت کو مخدوم سمجھے۔یعنی ہر ملنے والے کو بلا امتیاز اپنے سے بہتر جانے۔یہ خدمت نہیں کہ کسی کو مخدوم سمجھے اور اپنے آپ کو مخدوم سے افضل سمجھے کیونکہ یہ واضع خسارہ اور دھوکہ ہے۔ قلندر پاک(رح) کی عطا کے حُسن پہ لاکھوں سلام

Tuesday, August 7, 2018

قصیدہ بُردہ شریف

السلام علیکم : ۱۹۹۵ میں اس حقیر نے پاکستان ٹیلی ویژن سے قصیدہ بُردہ شریف کے ۱۲ پروگرام پیش کئیے جو قلندر پاک رحمتہ اللہ علیہ کے حُسنِ نظر کی عطا ہے۔آپ سرکار(رح) ہی فرماتے تھے”چھوڑو یہ ڈرامے اور انسانیت کے لئیے کام کرو” یہ میری خوش قسمتی کہ اس کام کو کرنے کے لئیے اللہ پاک نے صدقے پاک محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، میرا ہی انتخاب کیا اور اس کے کرنے میں ہر قسم کی نفسی سرکشی سے محفوظ فرمایا۔قصیدہ بُردہ شریف کے پروگراموں نے ٹیلی ویژن کی دنیا میں نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشکش کا انداز بدل دیا۔قلندر پاک(رح) نے فرمایا”فالج کے مریض اسے صبح،دوپہر اور شام 7 دن تک نہایت محبت اور یکسوئی سے سُنیں” بیماری تو بہت چھوٹی چیز ہے اصل بات تو حُب اور متابعت سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ قلندر پاک رحمتہ اللہ علیہ کے عشق سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ لاکھوں سلام

Monday, August 6, 2018

تائید ربانی

السلام علیکم :                       کائنات میں ہر شے ملکیت خداوندی ہے لیکن مجاز میں ہمیں اختیار دیا گیا ہے۔کسی اچھے کام کا کرنا تائید ربانی ہے جبکہ اس پر تکبر ہمارا اپنا نفس ہے اور جو قلندر پاک(رح) نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی تمہیں دیکھ رہا ہے یہ نقطہ بہت لطیف اور اہم ہے۔بزرگ یہی فرماتے ہیں”انسان ہر کام کرنے میں مختار ہے لیکن اختیار کرنے میں وہ مجبور ہے”جبکہ قرآن حکیم میں اس مسئلہ سے متعلق یہ فرمایا گیا کہ انسان جو نیک کام کرتا ہے اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور جو بُرے کام کرتا ہے وہ اس کی اپنی طرف سے ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ انسان روح اور جسم کا مجموعہ ہے،نیک کام اس کی روحانیت سے صادر ہوتے ہیں اور بُرے کام اس کی نفسانیت سے۔اب چونکہ انسان کی روحانیت کا منبع اور مصدر ذاتِ حق ہے اس لئیے نیک کام بجا طور پر حق تعالٰی  کی طرف منسوب ہوئے اور بُرے کام بجا طور پر انسان کی نفسانیت سے منسوب ہوئے۔ لہذا سورہ الرحمن سُننے سے روح کو جو طاقتِ پرواز ملتی ہے اس سے نہ صرف وہ نفس کو مہار  ڈالتی ہے بلکہ اس پہچان سے اللہ پاک کے پہچان کے سفر میں گامزن کرتی ہے قلندر پاک (رح) کی معرفت کے حُسن پہ لاکھوں سلامalrehman.com

بابا بابا بابا

*درد بھری تحریر*
بابا بابا ! تِین دِن رہ گئے ہیں قربانی والی

عید میں۔ ہمیں بھی گوشت ملے گا نا؟

بابا : ہاں ہاں کیوں نہی بِالکُل ملے گا۔۔

لیکن بابا پچھلی عید پر تو کسی نے بھی ہمیں

گوشت نہیں دیا تھا، اب تو پورا سال ہو گیا

ہے گوشت دیکھے ہوئے بھی،

نہیں شازیہ :اللہ نے ہمیں بھوکا تو نہیں رکھا،

میری پیاری بیٹی، ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیۓ

ڈاکٹر صاحب قربانی کے لئے بڑا جانور لے کر آئے ہیں،

اور ماسٹر جی بھی تو بکرا لے کر آئےہیں،

ہم غریبوں کے لیے ہی تو قربانی کا گوشت ہوتا ہے،

امیر لوگ تو سارا سال گوشت ہی کھاتے ہیں،

آج عیدالضحٰی پے مولوی صاحب بیان فرما رہے ہیں

کہقربانی میں غریب مسکین لوگوں کونہیں بھولنا چاہئے۔۔

ان کے بہت حقوق ہوتے ہیں۔۔

خیر شازیہ کا باپ بھی نماز ادا کر کےگھر پھنچ گیا،

گھنٹہ بھر انتظار کرنے کے بعد شازیہ بولی۔۔

بابا ابھی تک گوشت نہیں آیا،

بڑی بہن رافیہ بولی۔۔ چپ ہو جاٶ شازی بابا کو تنگ نہ کرو۔

وہ چپ چاپ دونوں کی باتیں سنتا رہا اور نظرانداز کرتا رہا۔۔

کافی دیر کے بعد بھی جب کہیں سے گوشت نہیں آیا تو شازیہ کی ماں بولی۔

سنیۓ میں نے تو پیاز ٹماٹر بھی کاٹ دیۓہیں۔ لیکن کہیں سے بھی گوشت نہیں آیا،

کہیں بھول تو نہیں گۓ ہماری طرف گوشت بجھوانا۔

آپ خود جا کر مانگ لائیں،

شازیہ کی ماں تمہیں تو پتہ ھے آج تک ہم نےکبھی کسی سے مانگانہیں ،

اللہ کوئ نہ کوئ سبب پیدا کرے گا۔۔

دوپہر گزرنے کے بعد شازیہ کے اسرار پر پہلے ڈاکٹر صاحب کے گھر گئے،

اور بولے ڈاکٹر صاحب۔ میں آپ کاپڑوسی ہوں کیا قربانی کا گوشت ملسکتا ہے؟

یہ سننا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کا رنگ لال پیلا ہونے لگا،

اور حقارت سے بولے پتہ نہیں کہاںکہاں سے آ جاتے ہیں گوشت مانگنے،

تڑاخ سے دروازہ بند کر دیا ۔۔

توہین کے احساس سے اسکی آنکھوں میں آنسو گۓ۔۔

اور بھوجل قدموں سے چل پڑا راستےمیں ماسٹر جی

کے گھر کی طرف قدم اٹھے اور وہاں بھی وہی دست سوال۔

ماسٹر جی نے گوشت کا سن کرعجیب سی نظروں سے دیکھا اور چلےگۓ۔

تھوڑی دیر بعدد باہر آۓ تو شاپر دے کرجلدی سے اندر چلۓ گۓ۔

جیسے اس نے گوشت مانگ کر گناہ کر دیا ہو۔۔

گھر پہنچ کر دیکھا تو صرف ہڈیاں اور چربی۔۔

خاموشی سے اٹھ کرکمرے میں چلے گئے اور خاموشی سے رونے لگ گئے۔

بیوی آئ اور بولی کوئی بات نہیں۔۔ آپ غمگین نہ ہوں۔

میں چٹنی بنا لیتی ہوں۔۔

تھوڑی دیر بعد شازیہ کمرے میں آئ۔

اور بولی بابا،

ہمیں گوشت نہںں کھانا ۔ میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے ویسے بھی،

یہ سننا تھا کہ آنکھوں سے آنسو گرنےلگے اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے

لیکن رونے والے وہ اکیلے نہیں تھے۔۔

دونوں بچیاں اور بیوی بھی آنسو بہا رہے تھے۔۔

اتنے میں پڑوس والے اکرم کی آواز آئ۔۔

جو سبزی کی ریڑھی لگاتا تھا۔۔

انور بھائی،

دروازہ کھولو،

دروازہ کھولا تو اکرم نے تین چار کلوگوشت کا شاپر پکڑا دیا،

اور بولا ،

گاٶں سے چھوٹا بھائ لایا ہے۔

اتنا ہم اکیلے نہیں کھا سکتے۔

یہ تم بھی کھا لینا

خوشی اورتشکر کے احساس سےآنکھوں میں آنسو آ گۓ ۔

اور اکرم کے لیۓ دل سے دعا نکلنے لگی۔

گوشت کھا کر ابھی فارغ ھوۓ ہی تھے کہ بہت زور کا طوفان آیا ۔

بارش شروع ہو گئ۔ اسکے ساتھ ہیبجلی چلی گئی۔

دوسرے دن بھی بجلی نہی آئی۔

پتہ کیا تو معلوم ہوا ٹرانسفارمر جل گیا۔

تیسرے دن شازیہ کو لے کرباہر آئے تو دیکھا کہ،

ماسٹر جی اور ڈاکٹر صاحب بہت سا گوشت باہر پھینک رہے تھے ۔

جو بجلی نہ ہونےکی وجہ سے خراب ہو چکا تھا۔

اور اس پر کُتے جھپٹ رہے تھے۔

شازیہ بولی،

بابا۔

کیا کُتوں کے لیۓ قربانی کی تھی؟

وہ شازیہ کا چہرہ دیکھتے رہ گیے ۔

اور ماسٹر جی اور ڈاکٹر صاحب نے یہ سُن کر گردن جھکا لی۔

خدرا احساس کریں غریب اور مسکین لوگوں کا۔

یہ صِرف تحریر ھی نہیں،

اپنے آس پاس خود دار مساکین کی‎ ‎ضرورتوں سے ہمہ وقت آگاہ رھنے کی درخواست بھی ھے۔

خاصان حق

السلام علیکم : خاصانِ حق کا معاملہ بھی خوب ہے ایک مجاہدہ کرتا ہے کہ مشاہدہ حاصل ہو اور دوسرے کی قسمت میں مشاہدہ ہے اس لئیے مجاہدہ کرتا ہے اور یہ بات بھی ضروری ہے کہ مجاہدہ کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں۔مجاہدہ ہر حال میں بندہ کی صفت ہے اور مجاہدہ کے تسلسل سے ہی اپنے نفس کا تزکیہ ممکن ہے۔ اور عبادات سے آپ اپنی اخلاقی گراوٹ کو دور کر سکتے ہیں۔قلندر پاک رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا”تم ہر وقت اپنے اللہ کے روبرو ہو”جب بندہ کو معلوم ہو جائے کہ حق تعالٰی اسے دیکھ رہا ہے تو پھر اسے بُرے کاموں سے شرم آنی چاہئیے۔ روبرو ہونے کا تصور انسان کے اندر شرم اور ندامت پیدا کرتا ہےاور وہ کوئی بھی کام کسی ریاکاری یا منافقت کے سبب نہیں کرتا بلکہ اسے حیا آتی ہے اور پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے کہ کہیں کسی بات سے اللہ تعالٰی ناراض نہ ہو جائیں۔ قلندر پاک رحمتہ اللہ علیہ پہ ہر دم لاکھوں سلام

اعمال ہی نجات

السلام علیکم: ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ صرف اعمال ہی نجات کا باعث نہیں بلکہ رحمت خداوندی ہی اصل راز ہے حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا” تم میں سے کوئی شخص اپنے اعمال کی وجہ سے نجات نہیں پائے گا”جب آپ شہنشاہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تو فرمایا” مجھے رحمت خداوندی نے پہلے ہی ڈھانپ لیا ہے” یعنی سرکار محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں بھی حق تعالٰی کی رحمت سے نجات پاؤں گا۔حضرت سید علی ھجویری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں”اگرچہ مجاہدہ بندہ کا فعل ہے لیکن اس کی نجات کا سبب نہیں بن سکتا۔کیونکہ سب کی نجات حق تعالٰی کی مشیت پر منحصر ہے نہ کہ مجاہدہ پر۔حق تعالٰی نے فرمایا”جس کو اللہ تعالٰی ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کے نور سے کھول دیتا ہے اور جس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے اس کے سینہ میں تنگی اور سختی پیدا کر دیتا ہے” قلندر پاک رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا”بندہ سورہ الرحمن بھی اللہ کی توفیق سے سُنتا ہے “سلطان باھو(رح) نے فرمایا”سُنیا سخن تے گئیاں کھل اکھیاں اساں چت مولا ول لائی ھو۔ قلندر پاک(رح) پہ لاکھوں سلام

Career Opportunities

_*Career Opportunities*_
دلچسپ اور سبق آموز واقعہ
خلیفہ ہارون الرشید عباسی خاندان کا پانچواں خلیفہ تھا‘ عباسیوں نے طویل عرصے تک اسلامی دنیا پر حکومت کی لیکن ان میں سے شہرت صرف ہارون الرشید کو نصیب ہوئی۔ ہارون الرشید کے دور میں ایک بار بہت بڑا قحط پڑ گیا۔ اس قحط کے اثرات سمرقند سے لے کر بغداد تک اور کوفہ سے لے کر مراکش تک ظاہر ہونے لگے۔ ہارون الرشید نے اس قحط سے نمٹنے کیلئے تمام تدبیریں آزما لیں‘اس نے غلے کے گودام کھول دئیے‘ ٹیکس معاف کر دئیے‘ پوری سلطنت میں سرکاری لنگر خانے قائم کر دئیے اور تمام امراءاور تاجروں کو متاثرین کی مدد کیلئے موبلائز کر دیا لیکن اس کے باوجود عوام کے حالات ٹھیک نہ ہوئے۔ ایک رات ہارون الرشید شدید ٹینشن میں تھا‘ اسے نیند نہیں آ رہی تھی‘ ٹینشن کے اس عالم میں اس نے اپنے وزیراعظم یحییٰ بن خالد کو طلب کیا‘ یحییٰ بن خالد ہارون الرشید کااستاد بھی تھا۔اس نے بچپن سے بادشاہ کی تربیت کی تھی۔ ہارون الرشید نے یحییٰ خالد سے کہا ”استادمحترم آپ مجھے کوئی ایسی کہانی‘ کوئی ایسی داستان سنائیں جسے سن کر مجھے قرار آ جائے“ یحییٰ بن خالدمسکرایا اور عرض کیا ”بادشاہ سلامت میں نے اللہ کے کسی نبی کی حیات طیبہ میں ایک داستان پڑھی تھی داستان مقدر‘ قسمت اور اللہ کی رضا کی سب سے بڑی اور شاندار تشریح ہے۔ آپ اگر ۔۔اجازت دیں تو میں وہ داستان آپ کے سامنے دہرا دوں“بادشاہ نے بے چینی سے فرمایا”یا استاد فوراً فرمائیے۔ میری جان حلق میں اٹک رہی ہے“ یحییٰ خالد نے عرض کیا ” کسی جنگل میں ایک بندریا سفر کیلئے روانہ ہونے لگی‘ اس کا ایک بچہ تھا‘ وہ بچے کو ساتھ نہیں لے جا سکتی تھی چنانچہ وہ شیر کے پاس گئی اور اس سے عرض کیا ”جناب آپ جنگل کے بادشاہ ہیں‘ میں سفر پر روانہ ہونے لگی ہوں‘ میری خواہش ہے آپ میرے بچے کی حفاظت اپنے ذمے لے لیں“ شیر نے حامی بھر لی‘ بندریا نے اپنا بچہ شیر کے حوالے کر دیا‘ شیر نے بچہ اپنے کندھے پر بٹھا لیا‘ بندریا سفر پر روانہ ہوگئی‘ اب شیر روزانہ بندر کے بچے کو کندھے پر بٹھاتا اور جنگل میں اپنے روزمرہ کے کام کرتا رہتا۔ ایک دن وہ جنگل میں گھوم رہا تھا کہ اچانک آسمان سے ایک چیل نے ڈائی لگائی‘ شیر کے قریب پہنچی‘ بندریا کا بچہ اٹھایا اور آسمان میں گم ہو گئی‘ شیر جنگل میں بھاگا دوڑا لیکن وہ چیل کو نہ پکڑ سکا“یحییٰ خالد رکا‘ اس نے سانس لیا اور خلیفہ ہارون الرشید سے عرض کیا ”بادشاہ سلامت چند دن بعد بندریا واپس آئی اور شیر سے اپنے بچے کا مطالبہ کر دیا۔ شیر نے شرمندگی سے جواب دیا‘تمہارا بچہ تو چیل لے گئی ہے‘ بندریا کو غصہ آگیا اور اس نے چلا کر کہا ”تم کیسے بادشاہ ہو‘ تم ایک امانت کی حفاظت نہیں کر سکے‘ تم اس سارے جنگل کا نظام کیسے چلاﺅ گے“شیر نے افسوس سے سر ہلایا اور بولا ”میں زمین کا بادشاہ ہوں‘ اگر زمین سے کوئی آفت تمہارے بچے کی طرف بڑھتی تو میں اسے روک لیتا لیکن یہ آفت آسمان سے اتری تھی اور آسمان کی آفتیں صرف اور صرف آسمان والا روک سکتا ہے“۔یہ کہانی سنانے کے بعد یحییٰ بن خالد نے ہارون الرشید سے عرض کیا ”بادشاہ سلامت قحط کی یہ آفت بھی اگر زمین سے نکلی ہوتی تو آپ اسے روک لیتے‘ یہ آسمان کا عذاب ہے‘ اسے صرف اللہ تعالیٰ روک سکتا ہے چنانچہ آپ اسے رکوانے کیلئے بادشاہ نہ بنیں‘ فقیر بنیں‘ یہ آفت رک جائے گی“۔دنیا میں آفتیں دو قسم کی ہوتی ہیں‘ آسمانی مصیبتیں اور زمینی آفتیں۔ آسمانی آفت سے بچے کیلئے اللہ تعالیٰ کا راضی ہونا ضروری ہوتا ہے جبکہ زمینی آفت سے بچاﺅ کیلئے انسانوں کامتحد ہونا‘ وسائل کا بھر پور استعمال اور حکمرانوں کا اخلاص درکار ہوتا ہے۔ یحییٰ بن خالد نے ہارون الرشید کو کہا تھا ”بادشاہ سلامت آسمانی آفتیں اس وقت تک ختم نہیں ہوتیں جب تک انسان اپنے رب کو راضی نہیں کر لیتا‘ آپ اس آفت کامقابلہ بادشاہ بن کر نہیں کر سکیں گے چنانچہ آپ فقیر بن جائیے۔ اللہ کے حضور گر جائیے‘ اس سے توبہ کیجئے‘ اس سے مدد مانگیے“۔ دنیا کے تمام مسائل اوران کے حل کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہوتا ہے جتنا ماتھے اور جائے نماز میں ہوتا ہے لیکن افسوس ہم اپنے مسائل کے حل کیلئے سات سمندر پار تو جا سکتے ہیں لیکن ماتھے اور جائے نماز کے درمیان موجود چند انچ کا فاصلہ طے نہیں کر سکتے.مکرم قارئین کرام چلتے، چلتے ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کے اگر کبھی کوئی ویڈیو، قول، واقعہ، کہانی یا تحریر وغیرہ اچھی لگا کرئے تو اپنے دوستوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے، یقین کیجئے کہ آپ کی شیئر کردا تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو ....!

Friday, August 3, 2018

حال ایک کیفیت

السلام علیکم: قلندر پاک رحمتہ اللہ علیہ کے چاہنے والوں کے لئیے حال و مقام کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔سید علی ھجویری رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا”حال ایک کیفیت کا نام ہے جو حق تعالٰی کی جانب سے بندے کے دل میں پیوست ہو جاتی ہے اب اگر وہ آتی ہے تو کوشش سے جا نہیں سکتی اور جب جاتی ہے تو کوشش سے روکی نہیں جاسکتی جبکہ مقام طلب حق میں وہ چیز ہے جو انسان کی کوشش اور جدوجہد سے حاصل ہوتی ہے اس لئیے حال فضل خداوندی اور مقام اعمال کا ثمرہ ہے”اس لئیے قلندر پاک رحمتہ اللہ علیہ نے مجھے حالت رویا میں فرمایا”جو حال ہے وہی مقام ہے”یعنی جو عطائے خداوندی ہوئی اس کے سبب نفس کے خلاف جہاد اور اللہ پاک کے احکامات کی پابندی ہی اسے کوئی مقام عطا کرتی ہے۔دنیا والے ظاہری اسباب اور رکھ رکھاؤ پر ہی توجہ دیتے ہیں جبکہ فقیر حال کے سبب اپنے باطن کو روشن کرنے کے لئیے مجاہدے کی حالت میں رہتا ہے۔حضور پر نور سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا”مجاہد وہ ہے جس نے قُرب حق کی خاطر نفس کی مخالفت کی” قلندر پاک(رح) کے حُسنِ مقام پہ لاکھوں سلام www.alrehman.com

Remove all kinds of Diseases from your Body

Who says that there is no cure to a physical disease, worldly complications and other affliction, misfortune or evilness? Please remember!...